فوزیہ کی چودائی
آج میں آپ کو اپنی ایک سچی کہانی سنانے جا رہا ہوں ۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی کہانی شروع کروں کچھ اپنا تعارف کروا دوں ۔ میرا نام کامران ہے اور میں کراچی میں رہتا ہوں ۔
یہ کہانی اُس وقت کی ہے جب میں بی کام کر رہا تھا۔ میرا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے ۔ اور میں پڑھا ئی میں کافی اچھا ہوں اس لئے پڑھائی کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی تھی ۔ میں فرسٹ ائیر ، سیکنڈ ائیر کے اسٹوڈ منٹس کو اکاونٹنگ اور منقس پڑھاتا تھا۔ ایک دن مجھ کو کسی جاننے والے نے ایک ٹویشن کی کہا۔ یہ 5 کلاس کی ٹیوشن تھی ۔ میں چونکہ چھوٹی کلاسز کو نہیں پڑھاتا تھا اس لئے پہلے تو میں نے انکار کیا لیکن جب انھوں نے زیادہ اصرار کیا اور اچھی فیس کی آفر کی تو میں نے سو چا پڑھالوں ا چھی فیس مل رہی ہے ۔
میرے اسٹوڈینٹ کا نام حمزہ تھا اور جیسا کہ میں نے بتایا وہ 5 کلاس میں تھا۔ حمزہ کی والدہ 32 سال کی ایک انتہائی حسین عورت تھیں ۔ لیکن وہ 25 سے زیادہ کی نہیں لگتی تھیں ۔ میں نے پہلی بار اُن کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا ۔ اُن رنگ گورا اور جسم پھر اکھر ا تھا جس پر اُن کا اُکھر ا ہوا سینہ غضب کا لگتا تھا ۔ اُن کا جسم کسی کنواری لڑکی جیسا تھا اور اُس کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ وہ شادی شدہ اور ایک بچے کی ماں ہے ۔ اُن کا نام فوزیہ تھا ۔ فوزیہ اپنے بیٹے کی پڑھائی میں بہت دلچسپی لیتی تھی۔ وہ روز حمزہ کی پڑھائی کی رپورٹ لیتی ۔ اس بہانے میری روز ہی اُن سے بات ہوتی تھی ۔ میں ڈائننگ ھال میں پڑھاتا تھا۔ سامنے ہی پچن تھا ۔ جس ٹائم میں پڑھاتا تھا اُس وقت وہ اکثر کچن میں ہی مصروف ہو تی تھی ۔ جب وہ کچن میں ہوتی اور اس دوران ہماری بات چیت ہوتی رہتی تھی ۔ کچھ ہی دن میں ہم کافی فری ہو گئے ایک بار میری
اُن کے شوہر سے بھی ملاقات ہوئی ۔ فوزیہ کے شوہر کو دیکھ مجھے حیرت ہوئی کیونکہ اُن کی عمروں میں کافی فرق تھا۔ فوزیہ کے شوہر کی عمر 50 سال کے لگ بھگ تھی۔ بعد میں مجھ کو پتا چا! کہ وہ فوزیہ کے کزن تھے اور کافی مالدار بھی تھے تو جب اُن کا رشتہ آیا تو فوزیہ کے والدین نے عمر کے فرق کے باوجود اُن کی شادی کر دی ۔ شادی کے وقت فوزیہ کی عمر صرف 20 سال کی تھی۔ جبکہ اُن کے شوہر کی عمر 8 3 سال تھی۔ شادی کے ابتدائی سالوں میں تو شوہر نے اُن کو خوش رکھا لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی اُن کے جذبے بھی ٹھنڈے پڑتے چلے گئے ۔ جب کے فوزیہ جوان تھی اور اُس کے جذبے بھی جوان تھے ۔
اب میں اپنی اصل کہانی کی طرف آتا
ہوں ۔ ایک دن میں گھر سے حمزہ کو بڑھانے نکلا تو موسم کافی خوشگوار تھا۔ 34 دن سے آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا لیکن بارش نہیں ہوئی تھی۔ جیسے ہی میں حمزہ کے اسٹاپ بارش شروع ہو گئی ۔ میں جلدی جلدی حمزہ کے گھر کی طرف بڑھا لیکن اُس کے گھر پہچنے اترا تیز
سے پہلے ہی میں پورا بھیگ چکا تھا ۔ میں نے حمزہ کا گیٹ بجایا تو فوزیہ نے گیٹ کھولا ۔ انھوں نے مجھ کو دیکھتے ہی اندر بلا لیا اور کہنے لگیں ۔
سر آپ اتنی بارش میں کیوں آئے ۔ آپ تو پورے بھیگ گئے ہیں
میں نے بتایا کہ جب میں گھر سے نکلا تو بارش شروع نہیں ہو ئی تھی۔ اسٹاپ پر اترا تو ایک دم تیز بارش اسٹارٹ ہو گئی ۔
انہوں نے مجھے کو بٹھایا اور حمزہ کو آواز دینے
چلی گئیں ۔ حمزہ برابر والے گھر کی چھت پر اپنے دوستوں کے ساتھ نہا رہا تھا ۔ وہ پڑھنے کو تیار نہیں ہوا ۔ جب وہ نہ آیا تو وہ کہنے لگیں سر آپ بیٹھیں میں آپ کے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں ۔ میں نے منع بھی کیا کہ چائے کی کیا ضرورت ہے ۔ وہ بولیں
سر بارش ہو رہی ہے اور اس موسم میں چائے پینے کا مزہ ہی کچھ اور ہے ۔“ اور کچن میں چائے
بنا نے چلی گئی ۔
تھوڑی دیر میں وہ جائے بنا کے لے آئیں اور پھر میرے سامنے ہی بیٹھ گئیں۔ ہم دونوں چائے پیتے ہوئے باتیں کرنے لگے ۔ وہ میرے سامنے بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آج اُنھوں نے ڈوپٹہ بھی نہیں پہنا ہوا تھا جس کی وجہ سے اُن کے سینہ کا اکھار صاف نظر آرہا تھا۔ جب باتیں کرتے ہوئے وہ جھکتیں تو اندر تک کا نظارہ ہو جاتا ۔ یہ دیکھ کر میرے تو ہوش ہی اُڑ گئے ۔ اور یہ منظر دیکھ کر میرا لنڈ بھی پینٹ کے اندر مچلنے لگا۔
میں اُس وقت پینٹ شرٹ میں تھا بارش کی وجہ سے پینٹ بھیگ کر جسم سے چپک چکی تھی جب میرا لنڈ کھڑا ہوا تو پینٹ میں سے صاف نظر آنے لگا۔ مجھ کو محسوس ہوا کہ اُنھوں نے بھی تیرے ابھرے ہوئے لنڈ کو دیکھ لیا ہے اور وہ بھی نظر میں محمد اکر بار بار میرے لنڈ کو ہی دیکھ رہی تھیں ۔ جب مجھ کو احساس ہوا کے وہ بھی لنڈ میں دلچسپی لے رہی ہے تو میں نے بھی اُس کو لائن دینا شروع کر دی ۔ اور اپنی ٹانگیں اس طرح کھول کر بیٹھ گیا جس کی وجہ سے میرا لنڈ اور بھی زیادہ صاف نظر آنے لگے ۔ چائے ختم ہو ئی تو وہ بولی۔ آپ کے تو پورے کپڑے بھیگ گئے ہیں میں آپ کو اپنے شوہر کے کپڑے لا دیتی ہوں آپ وہ پہن لو اور اتنی دیر میں آپ کے کپڑے میں پنکھے کے سامنے رکھ کے سکھا دیتی ہوں " ۔
میں نے کہا بھی کہ تھوڑی دیر میں خود ہی سوکھ جائیں گے لیکن جب اُنھوں نے اصرار کیا تو میں مان گیا ۔ وہ مجھ کو Bed Room میں لے آئی اور Bath Room کی طرف اشارہ کریہ کہنے لگئی ۔ آپ نہا لو میں آپ کے لئے کپڑے نکال کر صوفے پر رکھ دوں گی آپ نہا کر پہن لینا۔ میں باتھ روم میں گھس گیا۔ نہاتے خیال آرہا تھا جس کی وجہ سے نیر النڈ کھڑا ہو گیا شاور لے کر فریش ہو گیا ۔
نہا کر میں نے دیکھا کپڑے تو ہیں نہیں تو کپڑے مانگنے کے لئے میں نے فوزیہ کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہیں آیا ۔ میں نے 23 بار اُس کو آواز لگائی پر کوئی جواب نہیں آیا تو میں نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر دیکھا ۔ روم میں کوئی نہ تھا ۔ اور کمرہ کا دروازہ بھی بند تھا۔ میں نے دروازہ کھول کر روم میں نظر ڈالی تو دیکھا کہ کپڑے صوفے پر پڑے ہیں میں باہر نکل آیا اور کپڑے اُٹھا نے کے لئے صوفے کی طرف بڑھا ۔ ابھی میں صوفے تک پہنچا ہی تھا کہ ایک دم کمرے کا دروازہ کھلا اور فوزیہ اندر آ گئی ۔
میں اُس کے ایک دم کمرہ میں آنے پر گھبرا گیا کیوں کہ اس وقت میں بالکل ننگا تھا۔ اُس کو دیکھ کر میں sorry کرنے لگا ۔ تو وہ بولی کوئی بات نہیں غلطی تو میری ہے ۔ میں اُس کی سامنےبالکل نگا کھڑا تھا ۔ وہ مجھے کو ننگا دیکھ کر بھی کمرےسے گئی نہیں اُس کی نظر میں تیرے کھڑے لنڈ تھیں ۔ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر صوفے سے کپڑے اٹھا کر اپنے سامنے کر لئے ۔ وہ مجھ کو دیکھ کر شرارتی انداز سے مسکرانے لگی۔ کپڑے لے کر میں جلدی سے باتھ روم کی طرف بڑھا۔ہاتھ روم کے دروازہ پر جا کر میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ ابھی تک مجھ کو دیکھ کر شرارتی انداز ہوں ، میں نے مصنوعی غصہ سے پوچھا۔ کہ آپ کیوں ہنس رہی ہیں کیا میں کوئی کارٹون مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔ پھر وہ چلتی ہو ئی تیرے سامنے آکر کھڑی ہو گئیں اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر کہنے لگیں۔ کپڑے بدلنے باتھ روم کیوں جا رہے ہو یہاں ہی بدل لو ویسے بھی میں نے تو سب کچھ تو دیکھ ہی لیا ہے " ۔ اُس کی آنکھوں میں میرے لئے کھلی دعوت تھی۔ میں نے بھی کپڑے دور پھینک یئے اور اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا اگر آپ نے سب کچھ دیکھ ہی لیا ہے تو پھر کپڑے ہننے کی بھی کیا ضرورت“ ۔ اور یہ کہتے ہوئے میں
اُس کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔ میر النڈ اس وقت بھی تھیں وہ لنڈ کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ میں آگے بڑھا اور اُس کو اپنی بانہوں میں لے لیا اور اُس سے لپٹ کر اُس کی گردن پر kissing کرنے لگا اور پھر اُس کی کمر اور hips پر ہاتھ پھیر نے لگا وہ بھی kissing میں میرا بھر پور ساتھ دے رہی تھی ۔ اُس نے Kissing کرتے ہوئے میر النڈ اپنی ٹانگوں کے بیچ میں دبا لیا۔ اُس کا جسم بہت سافٹ اور گرم تھا ۔ تھوڑے دیر ہم ایک دوسرے کو اس طرح ہی kissing کرتے رہے پھر وہ میرے سینے پر kiss کرنے لگی اور kiss کرتے کرتے وہ نیچے وہ اور نیچے آگئی اور میرے لنڈ پر آکر رُک گئی ۔ میرے لنڈ کی سختی اور موٹائی دیکھ کر وہ حیران ہو گئی اور لنڈ کو ہاتھ میں لے کر پیار بھرے لہجے میں کہنے لگی ۔ Kami اس کو کہاں چھپا رکھا تھا اتنے دن
سے
یہاں ہی تھا تم نے کبھی دیہان ہی نہیں دیا ۔ میں نے بھی مستی بھرے لہجے میں جواب دیا ۔
مجھ کو کیا پتا تھا کہ تمہارے پاس اتنا شاندار اور مضبوط ہو گا ۔ اُس نے میرے لنڈ کو مسلتےہوئے کہا۔ پھر وہ لنڈ پر چاروں طرف سے kiss کرنے لگی ۔ وہ لنڈ پر زبان بھی پھیر رہی تھی۔ فوزیہ کچھ انتر لنڈ سے کھلتی رہی اُس کو پیار کرتی رہی پھر میں نے فوزیہ کو کھڑا کیا اور اُس کے سینے کو دبانے لگا پھر میں نے اُس کی قمیص کے اند ر ہا تھ ڈلا لیا اور ہاتھ اُس کے سینے پر لے جا کر سینے کو دبانے لگا اور میں قمیص کے اوپر سے ہی فوزیہ کے سینے پر kissing بھی کر رہا تھا ۔ میری بیتابی دیکھ کر وہ بننے لگی اور مجھے کو قمیض اتارنے کا اشارہ کیا میں نے جلدی سے اُس کی قمیض اتار دی اُس نے نیچے کچھ نہیں پہنا ہوا تھا قمیض اتارتے ہی اُس کے ممے آزاد ہو گئے میں اُن کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ اُس کے بھرے ہوئے گورے سنے گلاب گلاب نیل بہت حسین لگ رہے سینے پر گلابی گلابی نپل بہت حسین لگ رہے تھے ۔ میں تو ان کر دیکھ کر جیسے پاگل سا ہو گیا ۔ اور نپل منہ میں لے کر چوسنے اور دبانے لگا ۔ میرے ایسا کرنے پر وہ بھی مستی میں آگئی اور اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور مستی بھری آواز میں نکالنے لگی۔ میں اُس کے نپل منہ میں لے کر چوستے ہوئے بولا ۔
تمھاری چھاتیاں منہ میں لے کر ایسا لگ رہا ہے جیسے منہ میں شہد بھر گیا ہو ۔ میں اکثر خواب میں ان کو دیکھتا تھا۔ آج میرا یہ خواب پورا ہو گیا۔ “وہ مسکرائی اور اچھا .بولی آج اپنی ساری حسرتیں پوری کر لو آج میں پوری کی پوری تمھاری ہوں جو دل چاہے کرو“ اُس نے مستی میں ڈوبے لہجے میں کہا۔ میں اُس کے نپل منہ میں لے کر چوسنے لگا۔ میں ایک
ہاتھ سے اُس کے سینے کو دبانے لگا۔ اور دوسرا ہاتھ اُس کی شلوار کے اندر ڈال کر دیا اور اُس کی چوت پر ہاتھ پھیر نے لگا اور چوت کو سہلانے لگا۔ اُس کی چوت بہت گرم ہو رہی تھی ۔ میرے ایسا کرنے سے وہ اور گرم ہو گئی اور اُس نے بھی میر النڈ اور زیادہ زور سے پکڑ لیا ۔ وہ میرے لنڈ کو مسل رہی تھی اور جذبات میں ڈوب کر آواز میں نکال رہی تھی ۔ ایسا لگ رہا تھا کے اُس کو پہلی بار لینڈ ملا ہو ۔ میں نے اُس کی بیتابی دیکھی تو پوچھا کے اُس نے کتنے دن سے لنڈ نہیں لیا تو اُس نے بتایا کے اسکا بیٹا کمرے میں ساتھ ہی سوتا ہے تو موقع ہی نہیں ملتا کچھ کرنے کا اور اگر 34 مہینے بعد موقع ملتا بھی ہے تو اُسکا میاں اُس کو satisfy نہیں کر پاتا اور تھوڑی دیر میں ہی فارغ ہو جاتا ہے اور وہ پیاسی کی پیاسی ہی رہتی ہے ۔ اُس نے بتایا کے اُس نے کئی سال سے کھل کر سیکس نہیں کیا۔ ہم 15 منٹ تک اس طرح ہی ایک دوسرے میں گم رہے پھر وہ مجھ کو بیڈ پر لے آئی اور خود میڈ پر چت لیٹ گئی ۔مجھ سے بھی رہا نہ گیا اور میں اُس کے اُوپر لیٹ کر اُس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا ۔ ہو نٹوں کے بعد میں سینے پر آگیا اور نپل منہ میں لے کر چوسنے لگا پھر اور نیچے پیٹ پر kissing کرنے لگا اور پھر میں نے اُس کی شلوار بھی اُتار دی ۔ اُس کی گالی چوت میرے سامنے تھی ۔ چوت بالکل صاف تھی ۔ لگ رہا تھا اُس نے آج ہی بال صاف کئے ہیں ۔ اُس نے میرے لنڈ کو اپنی ٹانگوں کے درمیان دبا لیا اور میں اپنا لنڈ اُس کی پیاسی چوت پر رگڑنے لگا ۔ اُس نے ہاتھ سے پکڑ کر میرا لنڈ اپنی چوت کے سوراخ پر فٹ کر لیا اور اندر لینے کی کوشش کرنے لگی ۔ میں نے لنڈ اندر ڈالنے کے لئے زور لگایا تو وہ درد سے تڑپ اٹھی ۔ اُس کا سوراخ کافی چھوٹا تھا بالکل کسی کنواری لڑکی کی طرح ۔ میں نے اپنا لنڈ نکال لیا اور اپنا ہاتھ اُس کی چوت پر لے جا کر اپنی انگلی اُس کی چوت پر پھیر نے لگا اور پھر آہستہ آہستہ اپنی انگلی اُس کی چوت میں ڈال دی اور انگلی کو اندر باہر کرنے لگا۔ میری انگلی جب اُس کے دانے سے ٹکراتی تو وہ بے قابو ہو نے لگتی ۔ تھوڑی دیر میں اُس کی چوت گیلی ہو گئی اور میری انگلی آرام سے اندر باہر ہو نے لگی ۔ جب چوت تھوڑی کھل گئی تو میں نیچے آگیا اور اُس کی چوت پر kissing کرنے لگا۔ میں اُس کی چوت پر اپنی زبان پھیر نے لگا اور اُس کو چوسنے لگا۔ اب اُس کی چوت گیلی ہو گئی تھی اور لنڈ لینے کی لئے بالکل تیار تھی ۔ میں پھر اُس کے اوپر آگیا اور اُس کی ٹانگیں کھول کر اپنے
کندھوں پر رکھ لیں اور اپنا لنڈ اس کی چوت پر رکھ دیا اور آہستہ آہستہ زور لگانا شروع کر دیا ، تھوڑا زور لگایا تو میر ا ٹوپا چوت میں چلا گیا پھر میں نے اور زور لگایا تو لنڈ اور اندر چلا گیا اس نے آنکھیں بند کر لیں اور درد میں ڈولی مستی بھری آوازیں نکالنے لگی ۔ پھر میں نے زور کا جھٹکا لگایا اور پورے کا پورا لنڈ اندر ڈال دیا ۔ وہ تڑپ ٹھی لینڈ اُس کی چوت کی جڑ سے ٹکرا رہا تھا ۔ پھر میں نے لنڈ تھوڑا باہر نکالا اور آہستہ آہستہ اندر باہر کرنے لگا۔ جیسے جیسے میرا جوش بڑھ رہا تھا میری اسپیڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اور اُس کی آوازیں بھی بلند ہو رہی تھیں ۔ آآآ ۱۰۰۰۰ ۔ وہ بھی میرا بھر پور ساتھ دے رہی تھی اور نیچے سے وہ بھی دھکے لگا ر ہی تھی ۔ بہت مزہ آرہا ہے کا می آآآہ ہ ۔۔۔۔۔ اور زور سے آآہ ہ اور زور سے “ اُس کی آواز میرے جوش میں اضافہ کر رہی تھی لنڈ اور پھدی کی یہ جنگ آدھے گھنٹے تک جاری رہی ۔ پھر وہ ٹھنڈی پڑنے لگی اور کامی میرا پانی نکلنے والا ہے“ یہ کہتے ہوئے اُس کی چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔ میرا لوڑا اُس کی چوت میں چپو کی طرح چل رہا تھا ۔ تھوڑی دیر میں میرے لنڈ نے بھی لاوا چھوڑ دیا اور میں اُس کی چوت میں ہی فارغ ہو گیا ۔ میر اپانی اُس کی چوت کے کناروں سے بہنے لگا۔ تھک کر میں اُس کے اوپر ہی لیٹ گیا اُس نے خوشی سے مجھ کو گلے لگا لیا اور مجھے کو پیار کر نے لگی ۔ کا می آج تم نے مجھ کو وہ خوشی دی ہے جو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی ۔ i love you ,kami“ یہ کہتے ہوئے وہ مجھ کو چومنے لگی ۔ ہم کو پیار کا کھیل کھلتے ہوئے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا اور بارش بھی رُک گئی تھی ۔ پھر ہم دونوں باتھ روم گئے اور ساتھ مل کر نہائے ہم نے ایک دوسرے کو نہلایا اور ساتھ ساتھ مستیاں بھی کرتے رہے ۔ نہاتے ہوئے فوزیہ نے میرا لوڑا بھی منہ میں لے کر چوسا وہ بہت خوش تھی ۔ اس دن کے بعد ہم کو جب بھی موقع ملتا ہم kissing اور مستیاں کرتے ۔ ہمارا یہ تعلق دو سال رہا۔

0 Comments